اس بے وفا کی بزم سے چشم خیال میں
اک خواب آرزو کا لیے جا رہا ہوں میں
دل کو نگاہ یار کے نشتر سے چھیڑ کر
بیدار آرزو کو کیے جا رہا ہوں میں
بے درد مجھ سے شرح غم زندگی نہ پوچھ
کافی ہے اس قدر کہ جیے جا رہا ہوں میں
دو دن کی عمر وہ بھی ملی تھی بقید غم
یہ شکوہ ہر نفس میں کئے جا رہا ہوں میں
غزل
اس بے وفا کی بزم سے چشم خیال میں
ہادی مچھلی شہری