کھویا ہوا سا رہتا ہوں اکثر میں عشق میں
یا یوں کہو کہ ہوش میں آنے لگا ہوں میں
یہ ابتدائے شوق کی حالت نہ ہو کہیں
محفل میں اس سے آنکھ چرانے لگا ہوں میں
اب کیوں گلہ رہے گا مجھے ہجر یار کا
بے تابیوں سے لطف اٹھانے لگا ہوں میں
غزل
کھویا ہوا سا رہتا ہوں اکثر میں عشق میں
ہادی مچھلی شہری