دیکھ کر شمع کے آغوش میں پروانے کو
دل نے بھی چھیڑ دیا شوق کے افسانے کو
ذرے ذرے سے گلستاں میں برستی ہے بہار
کون ایسے میں سنبھالے ترے دیوانے کو
طور نے جس سے حیات ابدی پائی ہے
لاؤ دہراؤں میں پھر سے اسی افسانے کو
دل سرشار مرا چشم سیہ مست تری
جذبہ ٹکرا دے نہ پیمانے سے پیمانے کو
صبح کو دیکھ لے اس شمع کا انجام کوئی
جس نے پھونکا شب امید میں پروانے کو
غزل
دیکھ کر شمع کے آغوش میں پروانے کو
ہادی مچھلی شہری