فرشتہ ہے تو تقدس تجھے مبارک ہو
ہم آدمی ہیں تو عیب و ہنر بھی رکھتے ہیں
دل ایوبی
اس شہر میں تو کچھ نہیں رسوائی کے سوا
اے دلؔ یہ عشق لے کے کدھر آ گیا تجھے
دل ایوبی
کہاں میں ابھی تک نظر آ سکا ہوں
خدا جانے کتنی تہوں میں چھپا ہوں
دل ایوبی
لمحہ لمحہ مجھے ویران کئے دیتا ہے
بس گیا میرے تصور میں یہ چہرہ کس کا
دل ایوبی
نہ گرد و پیش سے اس درجہ بے نیاز گزر
جو بے خبر سے ہیں سب کی خبر بھی رکھتے ہیں
دل ایوبی
پھر مرحلۂ خواب بہاراں سے گزر جا
موسم ہے سہانا تو گریباں سے گزر جا
دل ایوبی
یہ دلچسپ وعدے یہ رنگیں دلاسے
عجب سازشیں ہیں کہاں آ گیا ہوں
دل ایوبی
یہ راہ عشق ہے آخر کوئی مذاق نہیں
صعوبتوں سے جو گھبرا گئے ہوں گھر جائیں
دل ایوبی