ادائے حیرت آئینہ گر بھی رکھتے ہیں
ہمیں نہ چھیڑ کہ اب تک نظر بھی رکھتے ہیں
نہ گرد و پیش سے اس درجہ بے نیاز گزر
جو بے خبر سے ہیں سب کی خبر بھی رکھتے ہیں
کہاں گیا تری محفل میں زعم دیدہ وراں
یہ حوصلہ تو یہاں کم نظر بھی رکھتے ہیں
قفس کو کھول مگر اتنا سوچ لے صیاد
بہت اسیر تیرے بال و پر بھی رکھتے ہیں
فرشتہ ہے تو تقدس تجھے مبارک ہو
ہم آدمی ہیں تو عیب و ہنر بھی رکھتے ہیں
خوشا نصیب کہ دیوانے ہیں تو ہم اے دلؔ
کمال نسبت دیوانہ گر بھی رکھتے ہیں
غزل
ادائے حیرت آئینہ گر بھی رکھتے ہیں
دل ایوبی