EN हिंदी
کہاں میں ابھی تک نظر آ سکا ہوں | شیح شیری
kahan main abhi tak nazar aa saka hun

غزل

کہاں میں ابھی تک نظر آ سکا ہوں

دل ایوبی

;

کہاں میں ابھی تک نظر آ سکا ہوں
خدا جانے کتنی تہوں میں چھپا ہوں

یہ کس نے صدا دی مجھے زندگی نے
مگر میں تو صدیاں ہوئیں مر چکا ہوں

یہ کہہ کر تو منزل نے دل توڑ ڈالا
جہاں سے چلا تھا وہی مرحلہ ہوں

یہ دلچسپ وعدے یہ رنگیں دلاسے
عجب سازشیں ہیں کہاں آ گیا ہوں

ترا قرب حاصل ہوا بھی تو کیا ہے
وہی فاصلہ تھا وہی فاصلہ ہوں