پھر مرحلۂ خواب بہاراں سے گزر جا
موسم ہے سہانا تو گریباں سے گزر جا
شیشے کے مکاں اور نظر کے متحمل
دیوانہ نہ بن شہر نگاراں سے گزر جا
سب قتل کے اسباب بہم ہیں سر مقتل
ایسے میں پس و پیش نہ کر جاں سے گزر جا
پھر دیں گے وہی مشورۂ ترک محبت
احباب نما حلقۂ یاراں سے گزر جا
کچھ دور نہیں منزل مقصود تمنا
اک فاصلۂ قرب رگ جاں سے گزر جا
اے دلؔ انہیں ادراک کہاں نمرتیوں کا
جو کہتے ہیں پل بھر میں بیاباں سے گزر جا
غزل
پھر مرحلۂ خواب بہاراں سے گزر جا
دل ایوبی