چاند تارے اک دیا اور رات کا کومل بدن
صبح دم بکھرے پڑے تھے چار سو میری طرح
عزیز نبیل
چپکے چپکے وہ پڑھ رہا ہے مجھے
دھیرے دھیرے بدل رہا ہوں میں
عزیز نبیل
گزر رہا ہوں کسی خواب کے علاقے سے
زمیں سمیٹے ہوئے آسماں اٹھائے ہوئے
عزیز نبیل
ہم قافلے سے بچھڑے ہوئے ہیں مگر نبیلؔ
اک راستہ الگ سے نکالے ہوئے تو ہیں
عزیز نبیل
کسی سے ذہن جو ملتا تو گفتگو کرتے
ہجوم شہر میں تنہا تھے ہم، بھٹک رہے تھے
عزیز نبیل
میں چھپ رہا ہوں کہ جانے کس دم
اتار ڈالے لباس مجھ کو
عزیز نبیل
میں کسی آنکھ سے چھلکا ہوا آنسو ہوں نبیلؔ
میری تائید ہی کیا میری بغاوت کیسی
عزیز نبیل
مسافروں سے کہو اپنی پیاس باندھ رکھیں
سفر کی روح میں صحرا کوئی اتر چکا ہے
عزیز نبیل
نہ جانے کیسی محرومی پس رفتار چلتی ہے
ہمیشہ میرے آگے آگے اک دیوار چلتی ہے
عزیز نبیل