EN हिंदी
بکھیرتا ہے قیاس مجھ کو | شیح شیری
bikherta hai qayas mujhko

غزل

بکھیرتا ہے قیاس مجھ کو

عزیز نبیل

;

بکھیرتا ہے قیاس مجھ کو
سمیٹ لیتی ہے آس مجھ کو

میں چھپ رہا ہوں کہ جانے کس دم
اتار ڈالے لباس مجھ کو

دکھا گئی ہے سراب سارے
بس ایک لمحے کی پیاس مجھ کو

میں مل ہی جاؤں گا ڈھونڈ لیجے
یہیں کہیں آس پاس مجھ کو

جو تم نہیں ہو تو لگ رہا ہے
ہر ایک منظر اداس مجھ کو