خیال و خواب کا سارا دھواں اتر چکا ہے
یقیں کے طاق میں سورج کوئی ٹھہر چکا ہے
مجھے اٹھا کے سمندر میں پھینکنے والو
یہ دیکھو ایک جزیرہ یہاں ابھر چکا ہے
میں ایک نقش، جو اب تک نہ ہو سکا پورا
وہ ایک رنگ، جو تصویر جاں میں بھر چکا ہے
یہ کوئی اور ہی ہے مجھ میں جو جھلکتا ہے
تمہیں تلاش ہے جس کی وہ کب کا مر چکا ہے
ترے جواب کی امید جاں سے باندھے ہوئے
مرا سوال ہوا میں کہیں بکھر چکا ہے
نہ تار تار ہے دامن، نہ ہے گریباں چاک
عجیب شکل جنوں اختیار کر چکا ہے
مسافروں سے کہو اپنی پیاس باندھ رکھیں
سفر کی روح میں صحرا کوئی اتر چکا ہے
وہ جب کہ تجھ سے امیدیں تھیں میری دنیا کو
وہ وقت بیت چکا ہے وہ غم گزر چکا ہے
نبیلؔ ایسا کرو تم بھی بھول جاؤ اسے
وہ شخص اپنی ہر اک بات سے مکر چکا ہے
غزل
خیال و خواب کا سارا دھواں اتر چکا ہے
عزیز نبیل