EN हिंदी
جس طرف چاہوں پہنچ جاؤں مسافت کیسی | شیح شیری
jis taraf chahun pahunch jaun masafat kaisi

غزل

جس طرف چاہوں پہنچ جاؤں مسافت کیسی

عزیز نبیل

;

جس طرف چاہوں پہنچ جاؤں مسافت کیسی
میں تو آواز ہوں آواز کی ہجرت کیسی

سننے والوں کی سماعت گئی گویائی بھی
قصہ گو تو نے سنائی تھی حکایت کیسی

ہم جنوں والے ہیں ہم سے کبھی پوچھو پیارے
دشت کہتے ہیں کسے دشت کی وحشت کیسی

آپ کے خوف سے کچھ ہاتھ بڑھے ہیں لیکن
دست مجبور کی سہمی ہوئی بیعت کیسی

پھر نئے سال کی سرحد پہ کھڑے ہیں ہم لوگ
راکھ ہو جائے گا یہ سال بھی حیرت کیسی

اور کچھ زخم مرے دل کے حوالے مری جاں
یہ محبت ہے محبت میں شکایت کیسی

میں کسی آنکھ سے چھلکا ہوا آنسو ہوں نبیلؔ
میری تائید ہی کیا میری بغاوت کیسی