آنکھوں کے غم کدوں میں اجالے ہوئے تو ہیں
بنیاد ایک خواب کی ڈالے ہوئے تو ہیں
تلوار گر گئی ہے زمیں پر تو کیا ہوا
دستار اپنے سر پہ سنبھالے ہوئے تو ہیں
اب دیکھنا ہے آتے ہیں کس سمت سے جواب
ہم نے کئی سوال اچھالے ہوئے تو ہیں
زخمی ہوئی ہے روح تو کچھ غم نہیں ہمیں
ہم اپنے دوستوں کے حوالے ہوئے تو ہیں
گو انتظار یار میں آنکھیں سلگ اٹھیں
راہوں میں دور دور اجالے ہوئے تو ہیں
ہم قافلے سے بچھڑے ہوئے ہیں مگر نبیلؔ
اک راستہ الگ سے نکالے ہوئے تو ہیں
غزل
آنکھوں کے غم کدوں میں اجالے ہوئے تو ہیں
عزیز نبیل