اگرچہ ذہن کے کشکول سے چھلک رہے تھے
خیال شعر میں ڈھلتے ہوئے جھجک رہے تھے
کوئی جواب نہ سورج میں تھا نہ چاند کے پاس
مرے سوال سر آسماں چمک رہے تھے
نہ جانے کس کے قدم چومنے کی حسرت میں
تمام راستے دل کی طرح دھڑک رہے تھے
کسی سے ذہن جو ملتا تو گفتگو کرتے
ہجوم شہر میں تنہا تھے ہم، بھٹک رہے تھے
یہ اس نے دیکھا تھا اک رقص نا تمام کے بعد
وفور شوق میں کون و مکاں تھرک رہے تھے
کتاب عمر گزشتہ کے حاشیوں میں نبیلؔ
وہ شور تھا کہ زمیں آسماں دھمک رہے تھے
غزل
اگرچہ ذہن کے کشکول سے چھلک رہے تھے
عزیز نبیل