نہ جانے کیسی محرومی پس رفتار چلتی ہے
ہمیشہ میرے آگے آگے اک دیوار چلتی ہے
وہ اک حیرت کہ میں جس کا تعاقب روز کرتا ہوں
وہ اک وحشت مرے ہم راہ جو ہر بار چلتی ہے
نکل کر مجھ سے باہر لوٹ آتی ہے مری جانب
مری دیوانگی اب صورت پرکار چلتی ہے
عجب انداز ہم سفری ہے یہ بھی قافلے والو
ہمارے درمیاں اک آہنی دیوار چلتی ہے
غزل کہنا بھی اب اک کار بے مصرف سا لگتا ہے
نیا کچھ بھی نہیں ہوتا بس اک تکرار چلتی ہے
نبیلؔ اس عشق میں تم جیت بھی جاؤ تو کیا ہوگا
یہ ایسی جیت ہے پہلو میں جس کے ہار چلتی ہے
غزل
نہ جانے کیسی محرومی پس رفتار چلتی ہے
عزیز نبیل