خاک چہرے پہ مل رہا ہوں میں
آسماں سے نکل رہا ہوں میں
چپکے چپکے وہ پڑھ رہا ہے مجھے
دھیرے دھیرے بدل رہا ہوں میں
میں نے سورج سے دوستی کی ہے
شام ہوتے ہی ڈھل رہا ہوں میں
ایک آتش کدہ ہے یہ دنیا
جس میں صدیوں سے جل رہا ہوں میں
راستوں نے قبائیں سی لی ہیں
اب سفر کو مچل رہا ہوں میں
اب مری جستجو کرے صحرا
اب سمندر پہ چل رہا ہوں میں
خواب آنکھوں میں چبھ رہے تھے نبیلؔ
سو یہ آنکھیں بدل رہا ہوں میں
غزل
خاک چہرے پہ مل رہا ہوں میں
عزیز نبیل