EN हिंदी
خاک چہرے پہ مل رہا ہوں میں | شیح شیری
KHak chehre pe mal raha hun main

غزل

خاک چہرے پہ مل رہا ہوں میں

عزیز نبیل

;

خاک چہرے پہ مل رہا ہوں میں
آسماں سے نکل رہا ہوں میں

چپکے چپکے وہ پڑھ رہا ہے مجھے
دھیرے دھیرے بدل رہا ہوں میں

میں نے سورج سے دوستی کی ہے
شام ہوتے ہی ڈھل رہا ہوں میں

ایک آتش کدہ ہے یہ دنیا
جس میں صدیوں سے جل رہا ہوں میں

راستوں نے قبائیں سی لی ہیں
اب سفر کو مچل رہا ہوں میں

اب مری جستجو کرے صحرا
اب سمندر پہ چل رہا ہوں میں

خواب آنکھوں میں چبھ رہے تھے نبیلؔ
سو یہ آنکھیں بدل رہا ہوں میں