بس رنج کی ہے داستاں عنوان ہزاروں
جینے کے لئے مر گئے انسان ہزاروں
اظہر ہاشمی
دوام پائے گا اک روز حق زمانے میں
یہ انتظار نہیں انتظار وحشت ہے
اظہر ہاشمی
دیکھا نہیں جس نے مرے طوفاں کو سکوں میں
وہ شخص مری روح کے اندر نہیں اترا
اظہر ہاشمی
گمان کہتا ہے کے میں یقیں کا شاعر ہوں
یقین کہتا ہے کے میں گماں کا شاعر ہوں
اظہر ہاشمی
اتنی نہ انتشار کی حدت ہو روبرو
انساں غم حیات میں جلتا دکھائی دے
اظہر ہاشمی
جس خاک سے کہتے ہو وفا ہم نہیں کرتے
سوئے ہیں اسی خاک میں سلطان ہزاروں
اظہر ہاشمی
کہیں سراغ نہیں ہے کسی بھی قاتل کا
لہولہان مگر شہر کا نظارہ ہے
اظہر ہاشمی
خدا کی رضا ہے نہ حاصل کسی کو
خدا کے لیے پر لڑائی بہت ہے
اظہر ہاشمی
کوئی حیات زمانہ کو ہے عزیز بہت
کوئی حیات ہے کہ روز روز مرتی ہے
اظہر ہاشمی