بس رنج کی ہے داستاں عنوان ہزاروں
جینے کے لئے مر گئے انسان ہزاروں
وہ جس نے مری روح کو درد آشنا رکھا
ہیں مجھ پہ اسی زخم کے احسان ہزاروں
جس خاک سے کہتے ہو وفا ہم نہیں کرتے
سوئے ہیں اسی خاک میں سلطان ہزاروں
اک رسم تکبر ہے سو اس دور کے انساں
جیبوں میں لئے پھرتے ہیں پہچان ہزاروں
لازم ہے مسافت میں بھٹک جانا ہمارا
ہم تنہا مسافر کے ہیں سامان ہزاروں
اب ہے فقط اندیشۂ حالات میسر
ہم دل میں کبھی رکھتے تھے ارمان ہزاروں
یہ شہر سخن ہے یہاں ہر موڑ پہ اظہرؔ
ہوشیار بنے بیٹھے ہیں نادان ہزاروں
غزل
بس رنج کی ہے داستاں عنوان ہزاروں
اظہر ہاشمی