EN हिंदी
آزردہ نگاہوں پہ یہ منظر نہیں اترا | شیح شیری
aazurda nigahon pe ye manzar nahin utra

غزل

آزردہ نگاہوں پہ یہ منظر نہیں اترا

اظہر ہاشمی

;

آزردہ نگاہوں پہ یہ منظر نہیں اترا
صحرائے تصور میں کوئی گھر نہیں اترا

جب مل گیا عرفان نظر مجھ کو خدا سے
پھر کیوں مرے احساس سے محشر نہیں اترا

دیکھا نہیں جس نے مرے طوفاں کو سکوں میں
وہ شخص مری روح کے اندر نہیں اترا

ظالم تو بہت ہیں مگر اب ان کو مٹانے
پھر کوئی ابابیل کا لشکر نہیں اترا

اس مسند خاکی پہ میں بیٹھا ہوں جہاں پر
کوئی بھی محل ساز برابر نہیں اترا

تنہائی جہاں بھی ملی آداب کیا ہے
حق تلفی پہ اس کی مرا پیکر نہیں اترا

سمجھوتے بلاتے رہے دے کر مجھے گوہر
ایماں کے زیاں میں مگر اظہرؔ نہیں اترا