کبھی مدھر کبھی میٹھی زباں کا شاعر ہوں
اسی سند سے میں ہندوستاں کا شاعر ہوں
دکھیں گے مجھ میں تمہیں زخم گھاؤ دونو ہی
خلاف ظلم کے عاجز بیاں کا شاعر ہوں
میں اپنی فکر کو محدود رکھ نہیں سکتا
زمین و عرش مکین و مکاں کا شاعر ہوں
گمان کہتا ہے کے میں یقیں کا شاعر ہوں
یقین کہتا ہے کے میں گماں کا شاعر ہوں
جہاں ہے ذرا قمر اور جہاں قمر ذرا
میں اس زمیں کا میں اس آسماں کا کا شاعر ہوں
ابھی مجھے نہ سخنور کہو مرے احباب
ابھی سخن میں فقط امتحاں کا شاعر ہوں
مجھے نہ دیکھو یوں نفرت بھری نگاہوں سے
میں ہاشمیؔ ہوں میں امن و اماں کا شاعر ہوں
غزل
کبھی مدھر کبھی میٹھی زباں کا شاعر ہوں
اظہر ہاشمی