EN हिंदी
اظہر ہاشمی شیاری | شیح شیری

اظہر ہاشمی شیر

15 شیر

ملتی ہے خوشی سب کو جیسے ہی کہیں سے بھی
بھولی ہوئی بچپن کی تصویر نکلتی ہے

اظہر ہاشمی




مرے وجود کا محور چمکتا رہتا ہے
اسی سند سے مقدر چمکتا رہتا ہے

اظہر ہاشمی




سجدے کا سبب جان کے شیریں ہے پریشاں
فرہاد نے کہہ ڈالا کے رب ڈھونڈ رہا ہوں

اظہر ہاشمی




اسی پہ صبر ہے مجھ کو ہر ایک دور یہاں
بہار آنے سے پہلے خزاں سے گزرا ہے

اظہر ہاشمی




یہ جو بے حال سا منظر یہ جو بیمار سے ہم تم
سیاست کی نوازش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں

اظہر ہاشمی




یہ تمنا ہے خدا عالم ہستی میں ترے
میں عیاں دیکھنا چاہوں تو نہاں تک دیکھوں

اظہر ہاشمی