یہ کم نہیں کے وہی شام کا ستارہ ہے
جسے فضیلت تنہائی نے ابھارا ہے
کہیں سراغ نہیں ہے کسی بھی قاتل کا
لہولہان مگر شہر کا نظارہ ہے
میں جا رہا ہوں مکمل وجود پانے کو
مجھے بھی صورت امکاں نے اب پکارا ہے
وہ ہنس کے ہر شب ظلمات کاٹ دیتے ہیں
وہ جن کے سینے میں افلاک کا سپارا ہے
چراغ جلتا رہے گا ہمیشہ الفت کا
یہی وجود کے انوار کا اشارہ ہے
یہ کیسی صورت مہتاب کھل رہی ہے مگر
زمیں پہ کس نے اسے عرش سے اتارا ہے
انا شکار پہ ظاہر یہ کب ہوا اظہرؔ
اسے نبھانے میں تقدیر کا خسارہ ہے

غزل
یہ کم نہیں کے وہی شام کا ستارہ ہے
اظہر ہاشمی