جو دولت ترقی رسائی بہت ہے
تو آپس میں اس سے جدائی بہت ہے
اگر تجھ میں الفت سمائی بہت ہے
تو سن لو یہاں ہے وفائی بہت ہے
کبھی درد ماں کو نہیں دو کہ اس کی
ہر ایک آہ میں گہری کھائی بہت ہے
خدا کی رضا ہے نہ حاصل کسی کو
خدا کے لیے پر لڑائی بہت ہے
محبت لٹائی ہے اپنو پہ بے حد
مگر چوٹ اپنو سے کھائی بہت ہے
حقیقت میں وہ دور کافی ہے مجھ سے
تصور میں جو پاس آئی بہت ہے
سیاست نے جشن چراغاں کے بدلے
غریبوں کی بستی جلائی بہت ہے
ہر اک شے سے لے کر زمین و فلک کو
میسر خدا کی خدائی بہت ہے
اگر مجھ کو ایماں کی پرواہ نہ ہوتی
تو دنیا میں اظہرؔ کمائی بہت ہے
غزل
جو دولت ترقی رسائی بہت ہے
اظہر ہاشمی