خوابوں کا انتخاب بدلتا دکھائی دے
کاش اب کہ اختیار سنورتا دکھائی دے
صیاد کے ہنر کی ستائش نہیں ہو اب
جس کو ہے پر نصیب وہ اڑتا دکھائی دے
اتنی نہ انتشار کی حدت ہو روبرو
انساں غم حیات میں جلتا دکھائی دے
کیا وہ حساب درس میں رکھے گا کائنات
جس کا یہاں وجود شکستہ دکھائی دے
غزل
خوابوں کا انتخاب بدلتا دکھائی دے
اظہر ہاشمی