آدمی کا عمل سے رشتہ ہے
کام آتا نہیں نسب کچھ بھی
اطہر نادر
اب آ بھی جاؤ کہ اک دوسرے میں گم ہو جائیں
وصال و ہجر کا قصہ بہت پرانا ہوا
اطہر نادر
دیکھو تو ہر اک رنگ سے ملتا ہے مرا رنگ
سوچو تو ہر اک بات ہے اوروں سے جدا بھی
اطہر نادر
دل نے گو لاکھ یہ چاہا کہ بھلا دوں تجھ کو
یاد نے تیری مگر آج بھی مارا شب خوں
اطہر نادر
غم گساری کے لئے اب نہیں آتا ہے کوئی
زخم بھر جانے کا امکاں نہ ہوا تھا سو ہوا
اطہر نادر
ہو گئی شام ڈھل گیا سورج
دن کو شب میں بدل گیا سورج
اطہر نادر
جب بھی ملتا ہے مسکراتا ہے
خواہ اس کا ہو اب سبب کچھ بھی
اطہر نادر
جو دیکھیے تو زمانہ ہے تیز رو کتنا
طلوع صبح ابھی ہے تو وقت شام ابھی
اطہر نادر
جو دیکھتا ہوں زمانے کی نا شناسی کو
یہ سوچتا ہوں کہ اچھا تھا بے ہنر رہتا
اطہر نادر