ہمارے حال سے کوئی جو با خبر رہتا
خیال اس کا ہمیں بھی تو عمر بھر رہتا
جسے بھی خواہش دیوار و در ہو صحرا میں
وہ کم نصیب تو اچھا تھا اپنے گھر رہتا
ہوا سے ٹوٹ کے گرنا مرا مقدر تھا
کہ زرد پتا تھا کیونکر میں شاخ پر رہتا
جو دیکھتا ہوں زمانے کی نا شناسی کو
یہ سوچتا ہوں کہ اچھا تھا بے ہنر رہتا
ہماری وجہ سے ہوتی نہ تیری رسوائی
ہمارے ساتھ اگر تو نہ اس قدر رہتا
تضاد قول و عمل میں ہو جس کے اے نادرؔ
وہ شخص کیسے نگاہوں میں معتبر رہتا
غزل
ہمارے حال سے کوئی جو با خبر رہتا
اطہر نادر