خبر نہیں کہ سفر ہے کہ ہے قیام ابھی
طلسم شہر میں کھوئے ہیں خاص و عام ابھی
صدا بھی دے گا کبھی تو سکوت کا صحرا
کسی کو ہونے تو دو خود سے ہم کلام ابھی
جو دیکھیے تو زمانہ ہے تیز رو کتنا
طلوع صبح ابھی ہے تو وقت شام ابھی
وہ قحط آب ہے دریا بھی سارے خشک ہوئے
رواں جو ابر ہے کرتا نہیں قیام ابھی
اب اتفاق سے بچ کر نکل گئے تو کیا
رہ طلب میں تو نادرؔ ہیں کتنے دام ابھی
غزل
خبر نہیں کہ سفر ہے کہ ہے قیام ابھی
اطہر نادر