دل میں یوں چاہ کا ارماں نہ ہوا تھا سو ہوا
جس کی خاطر میں پریشاں نہ ہوا تھا سو ہوا
وہ بھی کیا دن تھے کہ جب راحت جاں تھا کوئی
وقت بھی مجھ سے گریزاں نہ ہوا تھا سو ہوا
کس کو ہے تاب نگاہی ترا جلوہ دیکھے
آئنہ خود بھی تو حیراں نہ ہوا تھا سو ہوا
غم گساری کے لئے اب نہیں آتا ہے کوئی
زخم بھر جانے کا امکاں نہ ہوا تھا سو ہوا
یہ بھی اعجاز محبت ہے کہ وہ شوخ کبھی
وجۂ تسکین دل و جاں نہ ہوا تھا سو ہوا
جل اٹھیں دل میں تری یاد کی شمعیں آخر
اس خرابے میں چراغاں نہ ہوا تھا سو ہوا
اس کی خواہش کہوں یا اپنی تمنا نادرؔ
بزم میں اس کی غزل خواں نہ ہوا تھا سو ہوا
غزل
دل میں یوں چاہ کا ارماں نہ ہوا تھا سو ہوا
اطہر نادر