وہ نہیں جانتا ہے جب کچھ بھی
اس سے کہنا ہے بے سبب کچھ بھی
کون اپنا ہے کون بیگانہ
ہم کو معلوم ہے یہ سب کچھ بھی
بے غرض ہو کے سب سے ملتے ہیں
ہم کہ رکھتے ہیں بے طلب کچھ بھی
جب بھی ملتا ہے مسکراتا ہے
خواہ اس کا ہو اب سبب کچھ بھی
ہم بھی مل کر بچھڑ گئے اس سے
بات ایسی نہیں عجب کچھ بھی
آدمی کا عمل سے رشتہ ہے
کام آتا نہیں نسب کچھ بھی
لاکھ ظلمت کا بول بالا ہو
دو گھڑی میں نہ ہوگی شب کچھ بھی
ایسا دنیا سے جی الجھتا ہے
نہیں دنیا میں جیسے اب کچھ بھی
لوگ قسمت پہ چھوڑ دیتے ہیں
بات بنتی نہیں ہے جب کچھ بھی
جو نہیں چاہتے تھے ہم کہنا
اس سے کہنا پڑا وہ سب کچھ بھی
ذہن مفلوج ہو گیا شاید
یاد رہتا نہیں ہے اب کچھ بھی
وہ کسی کا ادب نہیں کرتے
جو نہیں جانتے ادب کچھ بھی
اس کے دل سے اتر گئے نادرؔ
تم کو آتا نہیں ہے ڈھب کچھ بھی
غزل
وہ نہیں جانتا ہے جب کچھ بھی
اطہر نادر