میں کہ خود اپنے خیالات کا زندانی ہوں
تیری ہر بات کو کس طرح گوارا کر لوں
صحرا صحرا جو پھرا کرتا ہے تیری خاطر
ہائے وہ شخص جسے کہتی ہے دنیا مجنوں
دل نے گو لاکھ یہ چاہا کہ بھلا دوں تجھ کو
یاد نے تیری مگر آج بھی مارا شب خوں
کس خرابے میں ہمیں لائی ہے وحشت کہ جہاں
کوئی دیوار نہ در ہے نہ کوئی بام و ستوں
آپ غزلیں جو کہا کرتے ہیں نادرؔ صاحب
کیا ملا کرتا ہے اس طرح بھی کچھ دل کو سکوں

غزل
میں کہ خود اپنے خیالات کا زندانی ہوں
اطہر نادر