EN हिंदी
اطہر نادر شیاری | شیح شیری

اطہر نادر شیر

22 شیر

کس درجہ مرے شہر کی دل کش ہے فضا بھی
مانوس ہر اک چیز ہے مٹی بھی ہوا بھی

اطہر نادر




آدمی کا عمل سے رشتہ ہے
کام آتا نہیں نسب کچھ بھی

اطہر نادر




جو دیکھتا ہوں زمانے کی نا شناسی کو
یہ سوچتا ہوں کہ اچھا تھا بے ہنر رہتا

اطہر نادر




جو دیکھیے تو زمانہ ہے تیز رو کتنا
طلوع صبح ابھی ہے تو وقت شام ابھی

اطہر نادر




جب بھی ملتا ہے مسکراتا ہے
خواہ اس کا ہو اب سبب کچھ بھی

اطہر نادر




ہو گئی شام ڈھل گیا سورج
دن کو شب میں بدل گیا سورج

اطہر نادر




غم گساری کے لئے اب نہیں آتا ہے کوئی
زخم بھر جانے کا امکاں نہ ہوا تھا سو ہوا

اطہر نادر




دل نے گو لاکھ یہ چاہا کہ بھلا دوں تجھ کو
یاد نے تیری مگر آج بھی مارا شب خوں

اطہر نادر




دیکھو تو ہر اک رنگ سے ملتا ہے مرا رنگ
سوچو تو ہر اک بات ہے اوروں سے جدا بھی

اطہر نادر