سمند شوق پہ خط اس کا تازیانہ ہوا
ملے ہوئے بھی تو اس سے ہمیں زمانہ ہوا
یہ سوچتا ہوں کہ آخر وہ مصلحت کیا تھی
کہ جس سے ترک تعلق کا اک بہانہ ہوا
اب آ بھی جاؤ کہ اک دوسرے میں گم ہو جائیں
وصال و ہجر کا قصہ بہت پرانا ہوا
وہ جس سے ملنے کی دل میں تڑپ زیادہ ہے
ہمارا اس سے تعارف بھی غائبانہ ہوا
صداقتوں پہ یقیں کوئی کس طرح کر لے
کہ کل جو سچ تھا وہی آج اک فسانہ ہوا
وہ تیری بزم سے بازار ہو کہ گلشن ہو
کہاں کہاں نہ مرا دل ترا نشانہ ہوا
وہ آج آئے ہیں نادرؔ تو ایسا لگتا ہے
فلک پہ جیسے ہمارا غریب خانہ ہوا
غزل
سمند شوق پہ خط اس کا تازیانہ ہوا
اطہر نادر