EN हिंदी
عرش صدیقی شیاری | شیح شیری

عرش صدیقی شیر

11 شیر

بس یوں ہی تنہا رہوں گا اس سفر میں عمر بھر
جس طرف کوئی نہیں جاتا ادھر جاتا ہوں میں

عرش صدیقی




دیکھ رہ جائے نہ تو خواہش کے گنبد میں اسیر
گھر بناتا ہے تو سب سے پہلے دروازہ لگا

عرش صدیقی




ایک لمحے کو تم ملے تھے مگر
عمر بھر دل کو ہم مسلتے رہے

عرش صدیقی




ہاں سمندر میں اتر لیکن ابھرنے کی بھی سوچ
ڈوبنے سے پہلے گہرائی کا اندازہ لگا

عرش صدیقی




ہم کہ مایوس نہیں ہیں انہیں پا ہی لیں گے
لوگ کہتے ہیں کہ ڈھونڈے سے خدا ملتا ہے

عرش صدیقی




ہم نے چاہا تھا تیری چال چلیں
ہائے ہم اپنی چال سے بھی گئے

عرش صدیقی




اک تیری بے رخی سے زمانہ خفا ہوا
اے سنگ دل تجھے بھی خبر ہے کہ کیا ہوا

عرش صدیقی




میں پیروی اہل سیاست نہیں کرتا
اک راستہ ان سب سے جدا چاہئے مجھ کو

عرش صدیقی




اٹھتی تو ہے سو بار پہ مجھ تک نہیں آتی
اس شہر میں چلتی ہے ہوا سہمی ہوئی سی

عرش صدیقی