بند آنکھوں سے نہ حسن شب کا اندازہ لگا
محمل دل سے نکل سر کو ہوا تازہ لگا
دیکھ رہ جائے نہ تو خواہش کے گنبد میں اسیر
گھر بناتا ہے تو سب سے پہلے دروازہ لگا
ہاں سمندر میں اتر لیکن ابھرنے کی بھی سوچ
ڈوبنے سے پہلے گہرائی کا اندازہ لگا
ہر طرف سے آئے گا تیری صداؤں کا جواب
چپ کے چنگل سے نکل اور ایک آوازہ لگا
سر اٹھا کر چلنے کی اب یاد بھی باقی نہیں
میرے جھکنے سے میری ذلت کا اندازہ لگا
لفظ معنی سے گریزاں ہیں تو ان میں رنگ بھر
چہرہ ہے بے نور تو اس پر کوئی غازہ لگا
آج پھر وہ آتے آتے رہ گیا اور آج پھر
سر بسر بکھرا ہوا ہستی کا شیرازہ لگا
رحم کھا کر عرشؔ اس نے اس طرف دیکھا مگر
یہ بھی دل دے بیٹھنے کا مجھ کو خمیازہ لگا
غزل
بند آنکھوں سے نہ حسن شب کا اندازہ لگا
عرش صدیقی