پھر ہنر مندوں کے گھر سے بے ہنر جاتا ہوں میں
تم خبر بے زار ہو اہل نظر جاتا ہوں میں
جیب میں رکھ لی ہیں کیوں تم نے زبانیں کاٹ کر
کس سے اب یہ اجنبی پوچھے کدھر جاتا ہوں میں
ہاں میں سایہ ہوں کسی شے کا مگر یہ بھی تو دیکھ
گر تعاقب میں نہ ہو سورج تو مر جاتا ہوں میں
ہاتھ آنکھوں سے اٹھا کر دیکھ مجھ سے کچھ نہ پوچھ
کیوں افق پر پھیلتی صبحوں سے ڈر جاتا ہوں میں
بس یوں ہی تنہا رہوں گا اس سفر میں عمر بھر
جس طرف کوئی نہیں جاتا ادھر جاتا ہوں میں
خوف کی یہ انتہا صدیوں سے آنکھیں بند ہیں
شوق کی یہ ابلہی بے بال و پر جاتا ہوں میں
عرشؔ رسموں کی پنہ گاہیں بھی اب سر پر نہیں
اور وحشی راستوں پر بے سپر جاتا ہوں میں
غزل
پھر ہنر مندوں کے گھر سے بے ہنر جاتا ہوں میں
عرش صدیقی