غم کی گرمی سے دل پگھلتے رہے
تجربے آنسوؤں میں ڈھلتے رہے
ایک لمحے کو تم ملے تھے مگر
عمر بھر دل کو ہم مسلتے رہے
صبح کے ڈر سے آنکھ لگ نہ سکی
رات بھر کروٹیں بدلتے رہے
زہر تھا زندگی کے کوزے میں
جانتے تھے مگر نگلتے رہے
دل رہا سر خوشی سے بیگانہ
گرچہ ارماں بہت نکلتے رہے
اپنا عزم سفر نہ تھا اپنا
حکم ملتا رہا تو چلتے رہے
زندگی سر خوشی جنوں وحشت
موت کے نام کیوں بدلتے رہے
ہو گئے جن پہ کارواں پامال
سب انہی راستوں پہ چلتے رہے
دل ہی گر باعث ہلاکت تھا
رخ ہواؤں کے کیوں بدلتے رہے
ہو گئے خامشی سے ہم رخصت
سارے احباب ہاتھ ملتے رہے
ہر خوشی عرشؔ وجہ درد بنی
فرش شبنم پہ پاؤں جلتے رہے
غزل
غم کی گرمی سے دل پگھلتے رہے
عرش صدیقی