سنگ در اس کا ہر اک در پہ لگا ملتا ہے
دل کو آوارہ مزاجی کا مزا ملتا ہے
جو بھی گل ہے وہ کسی پیرہن گل پر ہے
جو بھی کانٹا ہے کسی دل میں چبھا ملتا ہے
شوق وہ دام کہ جو رخصت پرواز نہ دے
دل وہ طائر کہ اسے یوں بھی مزا ملتا ہے
وہ جو بیٹھے ہیں بنے ناصح مشفق سر پر
کوئی پوچھے تو بھلا آپ کو کیا ملتا ہے
ہم کہ مایوس نہیں ہیں انہیں پا ہی لیں گے
لوگ کہتے ہیں کہ ڈھونڈے سے خدا ملتا ہے
دام تزویر نہ ہو شوق گلو گیر نہ ہو
مے کدہ عرشؔ ہمیں آج کھلا ملتا ہے
غزل
سنگ در اس کا ہر اک در پہ لگا ملتا ہے
عرش صدیقی