آدمیت کے سوا جس کا کوئی مقصد نہ ہو
عمر بھر اس آدمی کی جستجو کرتے رہو
انور صابری
آپ کرتے جو احترام بتاں
بتکدے خود خدا خدا کرتے
انور صابری
آیا ہے کوئی پرسش احوال کے لیے
پیش آنسوؤں کی آپ بھی سوغات کیجیے
انور صابری
اللہ اللہ یہ فضائے دشمن مہر و وفا
آشنا کے نام سے ہوتا ہے برہم آشنا
انور صابری
عطائے غم پہ بھی خوش ہوں مری خوشی کیا ہے
رضا طلب جو نہیں ہے وہ بندگی کیا ہے
انور صابری
دے کر نوید نغمۂ غم ساز عشق کو
ٹوٹے ہوئے دلوں کی صدا ہو گئے ہو تم
انور صابری
دے کر نوید نغمۂ غم ساز عشق کو
ٹوٹے ہوئے دلوں کی صدا ہو گئے ہو تم
انور صابری
حاصل غم یہی سمجھتے ہیں
موت کو زندگی سمجھتے ہیں
انور صابری
عشق کی آگ اے معاذ اللہ
نہ کبھی دب سکی دبانے سے
انور صابری