EN हिंदी
عطائے غم پہ بھی خوش ہوں مری خوشی کیا ہے | شیح شیری
ata-e-gham pe bhi KHush hun meri KHushi kya hai

غزل

عطائے غم پہ بھی خوش ہوں مری خوشی کیا ہے

انور صابری

;

عطائے غم پہ بھی خوش ہوں مری خوشی کیا ہے
رضا طلب جو نہیں ہے وہ بندگی کیا ہے

تری نگاہ کی نقاشی حسیں کے سوا
تو ہی بتا مرا مفہوم زندگی کیا ہے

ستم شعار جفا آشنا وفا دشمن
یہ ننگ عظمت آدم ہے آدمی کیا ہے

ترا تصور رنگیں اگر نہ ہو شامل
بہار گلشن امکاں میں دل کشی کیا ہے

زمانہ آپ کا کہتا ہے جس کو عکس جمیل
نظر اٹھا کے تو دیکھو یہ چاندنی کیا ہے

تمام عمر قفس میں گزار دی ہم نے
خبر نہیں کہ نشیمن کی زندگی کیا ہے