دور حاضر ہو گیا ہے اس قدر کم آشنا
آشنا ہمدم ہے کوئی اب نہ ہمدم آشنا
آہ کس منزل پہ پہنچی ہیں مری تنہائیاں
ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا مجھے غم آشنا
مختصر یہ ہے مرے قلب و نظر کی داستاں
آشنائے درد دل ہے آنکھ ہے نم آشنا
اللہ اللہ یہ فضائے دشمن مہر و وفا
آشنا کے نام سے ہوتا ہے برہم آشنا
عمر بھر انورؔ رہوں گا آرزو کا سوگوار
مرگ ارماں پر ازل سے ہوں میں ماتم آشنا
غزل
دور حاضر ہو گیا ہے اس قدر کم آشنا
انور صابری