EN हिंदी
انجم خلیق شیاری | شیح شیری

انجم خلیق شیر

39 شیر

اگر آتا ہوں ساحل پر تو آندھی گھیر لیتی ہے
سمندر میں اترتا ہوں تو طغیانی نہیں جاتی

انجم خلیق




اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے
تو یاس کے موسم میں بھی امید کا فن سیکھ

انجم خلیق




اذیتوں کی بھی اپنی ہی ایک لذت ہے
میں شہر شہر پھروں نیکیاں تلاش کروں

انجم خلیق




بہت ثابت قدم نکلیں گئے وقتوں کی تہذیبیں
کہ اب ان کے حوالوں سے کھنڈر آباد ہوتے ہیں

انجم خلیق




بس اے نگار زیست یقیں آ گیا ہمیں
یہ تیری بے رخی یہ تامل نہ جائے گا

انجم خلیق




بیتے ہوئے لمحات کو پہچان میں رکھنا
مرجھائے ہوئے پھول بھی گلدان میں رکھنا

انجم خلیق




فراق رت میں بھی کچھ لذتیں وصال کی ہیں
خیال ہی میں ترے خال و خد ابھارا کریں

انجم خلیق




ہاتھ آئے گا کیا ساحل لب سے ہمیں انجمؔ
جب دل کا سمندر ہی گہر بار نہیں ہے

انجم خلیق




ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
ہم جیسا مگر ذوق قوافی نہیں رکھتے

انجم خلیق