اک غزل لکھی تو غم کوئی پرانا جاگا
پھر اسی غم کے سبب ایک غزل اور کہی
انجم خلیق
اگر آتا ہوں ساحل پر تو آندھی گھیر لیتی ہے
سمندر میں اترتا ہوں تو طغیانی نہیں جاتی
انجم خلیق
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
ہم جیسا مگر ذوق قوافی نہیں رکھتے
انجم خلیق
ہاتھ آئے گا کیا ساحل لب سے ہمیں انجمؔ
جب دل کا سمندر ہی گہر بار نہیں ہے
انجم خلیق
فراق رت میں بھی کچھ لذتیں وصال کی ہیں
خیال ہی میں ترے خال و خد ابھارا کریں
انجم خلیق
بیتے ہوئے لمحات کو پہچان میں رکھنا
مرجھائے ہوئے پھول بھی گلدان میں رکھنا
انجم خلیق
بس اے نگار زیست یقیں آ گیا ہمیں
یہ تیری بے رخی یہ تامل نہ جائے گا
انجم خلیق
بہت ثابت قدم نکلیں گئے وقتوں کی تہذیبیں
کہ اب ان کے حوالوں سے کھنڈر آباد ہوتے ہیں
انجم خلیق
اذیتوں کی بھی اپنی ہی ایک لذت ہے
میں شہر شہر پھروں نیکیاں تلاش کروں
انجم خلیق