کچھ عذر پس وعدہ خلافی نہیں رکھتے
ہو کیسے مسیحا دم شافی نہیں رکھتے
ایسے تو نہ تھے زخم کہ جو بھر ہی نہ پاتے
احباب مگر ظرف تلافی نہیں رکھتے
اس چین سے جینے میں کوئی بھید نہیں ہے
بس یہ کہ تمنائیں اضافی نہیں رکھتے
اس دور میں انصاف پنپ ہی نہیں سکتا
اخلاص قلم جس میں صحافی نہیں رکھتے
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
ہم جیسا مگر ذوق قوافی نہیں رکھتے
یہ معجزہ محتاج ہے پندار وفا کا
سب تیشے دم کوہ شگافی نہیں رکھتے
ہر بات میں کم مایہ نظر آتے ہیں انجمؔ
راحت تو کجا درد بھی کافی نہیں رکھتے
غزل
کچھ عذر پس وعدہ خلافی نہیں رکھتے
انجم خلیق