ہاتھ آئے گا کیا ساحل لب سے ہمیں انجمؔ
جب دل کا سمندر ہی گہر بار نہیں ہے
انجم خلیق
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
ہم جیسا مگر ذوق قوافی نہیں رکھتے
انجم خلیق
ہم ایسے لوگ بہت خوش گمان ہوتے ہیں
یہ دل ضرور ترا اعتبار کر لے گا
انجم خلیق
اگر آتا ہوں ساحل پر تو آندھی گھیر لیتی ہے
سمندر میں اترتا ہوں تو طغیانی نہیں جاتی
انجم خلیق
انسان کی نیت کا بھروسہ نہیں کوئی
ملتے ہو تو اس بات کو امکان میں رکھنا
انجم خلیق
جن کو کہا نہ جا سکا جن کو سنا نہیں گیا
وہ بھی ہیں کچھ حکایتیں ان کو بھی تو شمار کر
انجم خلیق
کہو کیا بات کرتی ہے کبھی صحرا کی خاموشی
کہا اس خامشی میں بھی تو اک تقریر ہوتی ہے
انجم خلیق
کہو کیا مہرباں نا مہرباں تقدیر ہوتی ہے
کہا ماں کی دعاؤں میں بڑی تاثیر ہوتی ہے
انجم خلیق
کیسا فراق کیسی جدائی کہاں کا ہجر
وہ جائے گا اگر تو خیالوں میں آئے گا
انجم خلیق