EN हिंदी
دستار ہنر بخشش دربار نہیں ہے | شیح شیری
dastar-e-hunar baKHshish-e-darbar nahin hai

غزل

دستار ہنر بخشش دربار نہیں ہے

انجم خلیق

;

دستار ہنر بخشش دربار نہیں ہے
صد شکر کہ شانوں پہ یہ سر بار نہیں ہے

اب تو یہ مکاں قتل گہیں بننے لگے ہیں
اچھا ہے وہ جس کا کوئی گھر بار نہیں ہے

تحریص و سزا سے نہیں بدلیں گے یہ بیاں ہم
اک بار نہیں جب ہے تو ہر بار نہیں ہے

ہر ایک پہ کھل جائے بلا فرق مراتب
ایسا ہو تو دہلیز پہ دربار نہیں ہے

آ جائے توازن میں یہ ماحول کی میزان
انصاف کے پلڑے میں مگر بار نہیں ہے

ظلمت سے نکل آئیں چمکتے ہوئے رستے
پر مشعل احساس شرر بار نہیں ہے

ہاتھ آئے گا کیا ساحل لب سے ہمیں انجمؔ
جب دل کا سمندر ہی گہر بار نہیں ہے