دستار ہنر بخشش دربار نہیں ہے
صد شکر کہ شانوں پہ یہ سر بار نہیں ہے
اب تو یہ مکاں قتل گہیں بننے لگے ہیں
اچھا ہے وہ جس کا کوئی گھر بار نہیں ہے
تحریص و سزا سے نہیں بدلیں گے یہ بیاں ہم
اک بار نہیں جب ہے تو ہر بار نہیں ہے
ہر ایک پہ کھل جائے بلا فرق مراتب
ایسا ہو تو دہلیز پہ دربار نہیں ہے
آ جائے توازن میں یہ ماحول کی میزان
انصاف کے پلڑے میں مگر بار نہیں ہے
ظلمت سے نکل آئیں چمکتے ہوئے رستے
پر مشعل احساس شرر بار نہیں ہے
ہاتھ آئے گا کیا ساحل لب سے ہمیں انجمؔ
جب دل کا سمندر ہی گہر بار نہیں ہے
غزل
دستار ہنر بخشش دربار نہیں ہے
انجم خلیق