ذرا سی میں نے ترجیحات کی ترتیب بدلی تھی
کہ آپس میں الجھ کر رہ گئے دنیا و دیں میرے
انجم خلیق
زرفشاں ہے مری زرخیز زمینوں کا بدن
ذرہ ذرہ مرے پنجاب کا پارس نکلا
انجم خلیق
اک غزل لکھی تو غم کوئی پرانا جاگا
پھر اسی غم کے سبب ایک غزل اور کہی
انجم خلیق
اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے
تو یاس کے موسم میں بھی امید کا فن سیکھ
انجم خلیق
اذیتوں کی بھی اپنی ہی ایک لذت ہے
میں شہر شہر پھروں نیکیاں تلاش کروں
انجم خلیق
بہت ثابت قدم نکلیں گئے وقتوں کی تہذیبیں
کہ اب ان کے حوالوں سے کھنڈر آباد ہوتے ہیں
انجم خلیق
بس اے نگار زیست یقیں آ گیا ہمیں
یہ تیری بے رخی یہ تامل نہ جائے گا
انجم خلیق
بیتے ہوئے لمحات کو پہچان میں رکھنا
مرجھائے ہوئے پھول بھی گلدان میں رکھنا
انجم خلیق
فراق رت میں بھی کچھ لذتیں وصال کی ہیں
خیال ہی میں ترے خال و خد ابھارا کریں
انجم خلیق