EN हिंदी
اختر شاہجہانپوری شیاری | شیح شیری

اختر شاہجہانپوری شیر

19 شیر

اپنوں سے جنگ ہے تو بھلے ہار جاؤں میں
لیکن میں اپنے ساتھ سپاہی نہ لاؤں گا

اختر شاہجہانپوری




چلو امن و اماں ہے میکدے میں
وہیں کچھ پل ٹھہر کر دیکھتے ہیں

اختر شاہجہانپوری




دلوں میں کرب بڑھتا جا رہا ہے
مگر چہرے ابھی شاداب سے ہیں

اختر شاہجہانپوری




جام شراب اب تو مرے سامنے نہ رکھ
آنکھوں میں نور ہاتھ میں جنبش کہاں ہے اب

اختر شاہجہانپوری




جگنو تھا کہکشاں تھا ستارہ تھا یا گہر
آنسو کسی کی آنکھ سے جب تک گرا نہ تھا

اختر شاہجہانپوری




کوئی منظر نہیں برسات کے موسم میں بھی
اس کی زلفوں سے پھسلتی ہوئی دھوپوں جیسا

اختر شاہجہانپوری




لاج رکھنی پڑ گئی ہے دوستوں کی
ہم بھری محفل میں جھوٹے ہو گئے ہیں

اختر شاہجہانپوری




لوگ یہ سوچ کے ہی پریشان ہیں
میں زمیں تھا تو کیوں آسماں ہو گیا

اختر شاہجہانپوری




میں جھوٹ کو سچائی کے پیکر میں سجاتا
کیا کیجیے مجھ کو یہ ہنر ہی نہیں آیا

اختر شاہجہانپوری