ہاتھ جب موسم کے گیلے ہو گئے ہیں
زخم دل کے اور گہرے ہو گئے ہیں
بانٹتے تھے جو بہار زندگانی
بند اب وہ بھی دریچے ہو گئے
ڈوب جائے گا ہمارے ساتھ وہ بھی
یہ جو سوچا ہاتھ ڈھیلے ہو گئے ہیں
لاج رکھنی پڑ گئی ہے دوستوں کی
ہم بھری محفل میں جھوٹے ہو گئے ہیں
اے غم ماضی تجھے میں نذر کیا دوں
خشک آنکھوں کے کٹورے ہو گئے ہیں
اب مدد خار بیاباں ہیں کریں گے
سد رہ پیروں کے چھالے ہو گئے ہیں
سو سکے گا وہ بھی اخترؔ چین سے اب
ہاتھ بیٹی کے جو پیلے ہو گئے ہیں
غزل
ہاتھ جب موسم کے گیلے ہو گئے ہیں
اختر شاہجہانپوری