یاران تیز گام سے رنجش کہاں ہے اب
منزل پہ جا پہنچنے کی خواہش کہاں ہے اب
زنداں میں دن بھی رات ہی جیسا گزر گیا
اہل جنوں وہ پہلی سی شورش کہاں ہے اب
جام شراب اب تو مرے سامنے نہ رکھ
آنکھوں میں نور ہاتھ میں جنبش کہاں ہے اب
حلقہ بگوش کوئی نہ اب یار ہے یہاں
وہ روز و شب کی داد و ستائش کہاں ہے اب
جینے کا حق جو مانگا تو تیور بدل گئے
وہ میرے محسنوں کی نوازش کہاں ہے اب
چہرے پہ گرد عمر رواں کا ظہور ہے
بانہوں کے بالے بوسوں کی بارش کہاں ہے اب
خنجر ہو یا کہ دشنہ ہو یا تیغ یا قلم
اخترؔ وہ آب اور وہ برش کہاں ہے اب
غزل
یاران تیز گام سے رنجش کہاں ہے اب
اختر شاہجہانپوری