جو قطرے میں سمندر دیکھتے ہیں
تجھے منظر بہ منظر دیکھتے ہیں
قبائے درد جب سے زیب تن ہے
خوشی کو اپنے اندر دیکھتے ہیں
چلو امن و اماں ہے میکدے میں
وہیں کچھ پل ٹھہر کر دیکھتے ہیں
کبھی تنہائی نے تنہا نہ چھوڑا
تماشہ پھر بھی گھس کر دیکھتے ہیں
کرم فرمائی ہے سورج کی یہ بھی
اسے اپنے برابر دیکھتے ہیں
ہم اپنے پاؤں پھیلائیں گے اخترؔ
کہاں تک ہے یہ چادر دیکھتے ہیں
غزل
جو قطرے میں سمندر دیکھتے ہیں
اختر شاہجہانپوری