قسمت میں درد ہے تو دوا ہی نہ لاؤں گا
آئینۂ یقیں پہ سیاہی نہ لاؤں گا
یا تو مرے بیان پہ منصف یقیں کرے
یا پھر سزا لکھے میں گواہی نہ لاؤں گا
اس دور نا شناس میں کچھ بھی کہوں مگر
اب داستاں میں ذکر وفا ہی نہ لاؤں گا
اپنوں سے جنگ ہے تو بھلے ہار جاؤں میں
لیکن میں اپنے ساتھ سپاہی نہ لاؤں گا
دوش رم پہ بار ہے جب حرف مدعا
پھر میں زباں پہ حرف دعا ہی نہ لاؤں گا
جب تم صف عدو میں چلے جاؤ گے تو پھر
دل میں ملال کور نگاہی نہ لاؤں گا
میدان کارزار میں اخترؔ کبھی بھی میں
خوف سنان ظل الٰہی نہ لاؤں گا
غزل
قسمت میں درد ہے تو دوا ہی نہ لاؤں گا
اختر شاہجہانپوری